بیرون ملک یوم آزادی تقاریب، سرمائے اور وقت کا ضیاع ؟؟؟

This slideshow requires JavaScript.

( تحریر، محمد طارق )

پوری دنیامیں مقیم اورسیز پاکستانی14 اگست کا دن بڑے زور و شور سے مناتے ہیں ، ہر ملک میں جہاں پاکستانی زیادہ تعداد میں مقیم ہیں ، ان ممالک میں ایک ہی دن کئی کئی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں ، جس میں پروگرام آرگنائزر اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کو اپنے پروگرام میں مدعو کرتے ہیں ، ان پروگراموں میں زیادہ تر محمان خصوصی پاکستان سے وزرا ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ہوتے ہیں ، ساتھ ہی کچھ پروگراموں میں پاکستان کی عدلیہ ، بیوروکریسی اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ، یوم آزادی کی تقاریب کو مزید رنگین کرنے کے لیے اور زیادہ لوگوں کو اپنے پروگرام میں شرکت کے لیے پاکستان کی فلم انڈسٹری سے اداکاروں اور گلوکاروں کو بھی بلایا جاتاہے-

ہر پروگرام کا فارمیٹ ایک جیسا ہی ہوتا ہے ، یوم آزادی پر اکثرتقاریر پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر ہوتی ہیں ، اگر مقرر حکومتی پارٹی کا ہے تو وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو یہ بتانے کی کوشش کرے گا کہ ملک اب محفوظ ہاتھوں میں ہے ، صرف چند سال میں ہی پاکستان سے غربت ، مہنگائی ، بےروزگاری ختم ہوجائیگی ، پاکستان نے خارجی امور پر تھوڑے ہی عرصے میں بڑی کامیابیاں سمیٹیں ہیں ، جلد ہی دوسرے ممالک کے لوگ پاکستان میں کام کرنے کے لیے آیا کریں گے، دوسری طرف بیرون ممالک تقریبات میں مدعو سیاست دانوں کے اپنے اپنے حلقے کے حالات معلوم کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ سیاست دان بیرون ممالک جو بھاشن دے رہے ہیں ، حقیقت اور عملی زندگی میں ان کا کوئی ربط ہی نہیں ، تقریبا 90 % اسمبلی ممبران کے حلقوں میں یہ حالت ہے ، کہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ، سیوریج کا کوئی نظام نہیں ، نالیوں کا گندہ پانی باہر گلیوں میں بہہ رہا ہے ، ہر گاوں ، ہر محلے میں گندگی اور کوڑے کے ڈھیر ، سکولوں کی حالٹ زار جیسے مسائل کو حل کرنے میں یہی سیاست دان نا کوئی دلچسپی لیتے ہیں ، نا ہی ان مسائل کو اپنی سیاسی ترجحیات میں شامل کرتے ہیں –

اگر مقرر اپوزیشن کی پارٹیوں سے ہے ، تو وہ یہ کہے گا کہ ملک بڑی گھمبیر صورتحال سے دو چار ہے ، ملکی معاشی حالات تنزلی کی طرف گامزن ہیں ، مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے، موجودہ حکومت بہت زیادہ قرضوں پر انحصار کر رہی ہے ، حکومت کی غلط پالیسیوں اور نئے ٹیکس آنے سے نئی سرمایہ کاری رک گائی ، جس کی وجہ سے ملکی برآمدات کم ہو رہی ہیں ، جبکہ درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے –

یوم آزادی کے پروگراموں میں دونوں مقررین کے خیالات سن کر اورسیز پاکستانی شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کون سچا اور کون مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہے ، جس سے وہ اس نتیجے پر آتا ہے پاکستان کو ترقی کی راہ پر آنے میں کافی وقت درکار ہے ، کیونکہ ابھی تو ملک کے فیصلہ ساز لوگ آپس میں ہی متفق نہیں ہو پا رہے-

یوم آزادی کے پروگراموں کی اہم بات یہ ہے کہ بیرون ممالک میں روزگار کے بہتر مواقع ہونے ، سرمایہ کاری کا سازگار ماحول ہونے کی وجہ سے اورسیز پاکستانی معاشی طور پر جلد آسودہ ہوجاتے ہیں ، پاکستان میں غربت ، بےروزگاری اور کم معیار زندگی کی وجہ سے پاکستان میں یہ لوگ پاکستان کے سیاسی سرکٹ ، پاکستان کی مقتدر طبقات میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہتے ہیں ، لیکن یورپ میں آکر چند سال کی محنت کے بعد اپنی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کرلیتے ہیں ، معاشی آسودگی حاصل کرنے کے بعد چند ایک کا اگلا ٹارگٹ کسی پاکستانی سماجی تنظیم کی بنیاد رکھنا ہوتا ہے ، یا کسی پرانی تنظیم میں ممبر بن کر اس تنظیم میں صدر ، سیکرٹری کا عہدہ حاصل کرنا ہوتا ہے ، یورپ میں پاکستانی تنظیموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے سے موجود پاکستانی سماجی تنظیموں کے یہ لوگ کم ہی ممبر بنتے ہیں ، دوسری طرف پہلے سے موجود پاکستانی سماجی تنظیموں کے عہدے دار نئے آنے والوں کو انتظامی معاملات سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، تاکہ کہ کہیں یہی نئے ممبران چند عرصے بعد ان سے انتظامی معاملات چھین نہ لے اور یہ نئے لوگ تنظیم کے صدر ، سیکرٹری نہ بن جائیں ، اس سوچ کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک ، شہروں میں ہم وطنوں نے اتنی زیاد سماجی تنظیمیں بنا ڈالی ہیں کہ عام پاکستانی کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ 14 اگست کہ کونسے پروگرام میں شرکت کرے ، کس تنظیمی عہدے دار کو راضی رکھے ، کیونکہ بیرون ممالک میں تھوڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے ہر بندے کی ایک دوسرے کے ساتھ اچھی جان پہنچان ہوتی ہے –

بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی ہر سال پاکستان کے بارے میں مختلف تقاریب کر کے مادر وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ، تقاریب کا انعقاد کرنے میں اپنا قیمتی وقت اور سر مایہ استعمال کرتے ہیں ، ان تقاریب کا اہتمام زیادہ تر وہ لوگ کرتے ہیں ،جن کو آپ پہلی نسل کہتے ہیں یا وہ لوگ ہوتے ہیں جو پاکستان میں بڑے ہوکر یورپ ، اور دوسرے ممالک میں قیام پذیر ہوتے ہیں ،ان لوگوں کا ایسی تقاریب منعقد کرنے کا 2 بڑے مقاصد ہوتے ہیں ، اپنے بچوں کو پاکستان کے بارے میں معلومات دینا، تاکہ وہ پاکستان کے معاملات میں دلچسپی لے ، پاکستان اور پاکستان میں رہنے والے خاندان کو نہ بھولے ، لیکن اب تک ان تقاریب کا اورسیزپاکستانیوں کے یورپ میں پروان چڑھنے والے بچوں پر کم ہی اثر ہوا ہے ، یورپ میں پیدا ہونے والے اور بڑھے ہونے والے بچے ان تقاریب میں کم ہی شرکت کرتے ہیں ، دوسری نسل کے بچوں کی ان تقاریب میں شرکت نہ کرنے کی وجہ ان بچوں کی اپنی مادری زبان ، اردو پر عبور حاصل نہ ہونا ہے ، اردو یا مادری زبان نہ آنے کی وجہ سے یہ بچے اور نوجوان پاکستانی خبریں کم سنتے ہیں ، اخبارات کم پڑھتے ہیں –

منتظمین کا یوم آزادی تقاریب منعقد کرانے کا دوسرا بڑا مقصد پاکستانی سیاست دانوں اور مقتدر طبقات میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش ہے ، تاکہ پاکستان میں بوقت ضرورت کسی مشکل وقت میں ان سے مدد لی جا سکیں ، لیکن جب پاکستان میں مشکل وقت آگیا تو پھر یہی سیاست دان ، بیوروکریسی کے اہل کار آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے –

اگر مثبت انداز میں سوچا جائے تو یوم آزادی کی ایسی تقاریب منعقد کرانے کے یہ مقاصد برے نہیں ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے سال ایسی تقاریب منعقد کرانے سے کیا اورسیز پاکستانیوں کے بچوں نے پاکستانی سیاست ، ثقافت ، اپنے خاندانی معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی ہے ، تو اس کا جواب نفی میں ہے ، کیا بیرون ممالک سماجی تنظیموں کے منتظمین پاکستان کے مقتدر طبقات میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ، تو اس کا بھی جواب حوصلہ افز نہیں –

اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ بیرون ممالک یوم آزادی کی تقاریب منعقد کرانے والی تنظیمیں ، اور منتظمین ایسے پروگرام منعقد کراتے وقت نئی ترجحیات پر فوکس کریں ، جیسے ان پروگراموں میں پاکستان کے تاجروں کو مدعو کیا جائے ، ان کو مقامی مارکیٹ سے روشناس کرایا جائے ، یورپی ممالک کے تاجروں ، سرمایہ کاروں سے روابط قائم کئے جائیں ، ان کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جائے ، پاکستان میں سرمایہ کاری پر مختلف قسم کے سمینار کرائیں جائیں ، تاکہ جو سرمایہ اور وقت فضول تقریبات پر ضائع ہورہا ہے ، اس سرمایے ، وقت کو تعمیری سرگرمیوں میں لا کر پاکستان کے محروم طبقے کے لیے پاکستان میں روز گار ، تعلیم ، انصاف کا حصول ممکن بنایا جاسکے ، جس سے پاکستان کے اس طبقے کی زندگی آسان ہوسکے –

Recommended For You

Leave a Comment